نیرا ایک درمیانے طبقے کے خاندان کی لڑکی تھی، جس کے کندھوں پر پورے گھر کی ذمہ داری تھی۔ اُس کا باپ کئی سالوں سے بستر پر تھا، ایک حادثے نے اُس کی ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بیکار کر دی تھیں۔ گھر میں واحد کمانے والا نیرا ہی تھی۔
نیرا کی ماں محلے کے گھروں میں کام کرتی تھی، برتن دھونا، کپڑے دھونا، اور صفائی کرنا اس کی روز مرہ کی مصروفیات تھیں۔ وہ صبح سویرے گھر سے نکلتی اور شام ڈھلنے تک محنت کرتی تاکہ کچھ پیسے کما سکے، مگر یہ رقم گھر کے اخراجات کے لیے ناکافی تھی۔
نیرا ایک چھوٹے سے دفتر میں کلرک کی نوکری کرتی تھی۔ ہر روز وہ صبح سویرے اٹھتی، اپنی ماں کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی، اور پھر دفتر کے لیے روانہ ہو جاتی۔ اُس کا دل چاہتا تھا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنی زندگی کے بارے میں سوچے، خواب دیکھے، لیکن حالات نے اسے وقت سے پہلے ہی بہت سمجھدار بنا دیا تھا۔
نیرا کے دل میں اپنے والدین کے لیے بے پناہ محبت تھی۔ وہ جب بھی اپنے باپ کو بستر پر بے بس دیکھتی، اُس کا دل دکھی ہو جاتا۔ اُس کی ماں کے ہاتھوں کی سختی اور آنکھوں کی تھکن دیکھ کر اُس کا دل بھر آتا، لیکن وہ کبھی بھی ہمت نہیں ہارتی تھی۔ اُس نے اپنے والدین کو کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ تھک گئی ہے یا حالات سے پریشان ہے۔
دفتر میں بھی نیرا کے کام کی تعریف ہوتی تھی۔ اس کی محنت اور لگن کی وجہ سے اُس کے افسران اُس کو عزت دیتے تھے۔ کئی بار دفتر کے لوگ اُس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے، لیکن نیرا نے ہمیشہ خودداری کا مظاہرہ کیا۔
ایک دن، نیرا کو معلوم ہوا کہ اُس کے دفتر میں ایک نئی پوزیشن کھلی ہے جس کے لیے تنخواہ بھی زیادہ تھی۔ اُس نے اس پوزیشن کے لیے درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس سے اُس کے گھر کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
انٹرویو کے دن نیرا نے اپنی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا پرانا مگر صاف سوٹ پہنا اور دعا کر کے گھر سے نکلی۔ انٹرویو کے دوران، اُس نے اپنی محنت، ایمان داری اور گھر کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا۔ اُس کے الفاظ میں سچائی اور آنکھوں میں عزم تھا۔
چند دن بعد، نیرا کو معلوم ہوا کہ اُسے نئی پوزیشن کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ جلدی سے گھر پہنچی اور اپنے والدین کو یہ خوشخبری سنائی۔ اُس کے والدین کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔
نیرا کے نئے کام نے نہ صرف اُس کے گھر کے مالی حالات کو بہتر کیا بلکہ اُس کے اندر اعتماد بھی پیدا کیا۔ اُس کی محنت اور محبت نے اُسے کامیاب بنایا، اور اُس کے والدین کو اُس پر فخر تھا۔
نیرا کی کہانی ان لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی جو مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے۔ وہ ثابت کر چکی تھی کہ اگر انسان سچے دل اور محنت سے کام کرے، تو کوئی بھی مشکل اُس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
نیرا ایک محنتی اور باہمت لڑکی تھی، جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دن رات کام کرتی تھی۔ وہ ایک درمیانے درجے کے دفتر میں کلرک تھی، جہاں اس کے باس ارہام خان تھے۔ ارہام خان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے اصولوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ وہ سخت مزاج، منظم اور بے حد پروفیشنل تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص جاذبیت تھی، جو نہ صرف ان کی ظاہری وجاہت بلکہ ان کے اندازِ گفتگو اور رویے سے بھی جھلکتی تھی۔
ارہام خان ایک امیر اور باوقار خاندان کے اکلوتے وارث تھے۔ ان کے والد، کرنل ریٹائرڈ خان، ایک اصول پسند اور باعزت فوجی تھے، جنہوں نے اپنے والد کی وصیت کے تحت وراثت میں بڑی جائیداد حاصل کی۔ کرنل خان نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو دیانت داری، وقت کی پابندی اور محنت کی اہمیت سکھائی۔ یہی تربیت ارہام کے کردار کا حصہ بن چکی تھی۔
دوسری طرف، ارہام کی والدہ ایک جدید دور کی عورت تھیں، جو سماجی تقریبات کی جان سمجھی جاتی تھیں۔ ان کا رویہ اکثر مغرور اور خود پسندی پر مبنی تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی حیثیت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرتی تھیں اور لوگوں کو اپنی حیثیت سے نیچے دیکھتی تھیں۔
نیرا اور ارہام کے درمیان رشتہ صرف دفتر تک محدود تھا، لیکن نیرا کو ارہام کے رویے اور توقعات کے ساتھ چلنے میں سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ ارہام کی سخت طبیعت نے اکثر نیرا کو مشکل میں ڈالا، لیکن وہ ہمیشہ اپنی محنت اور عزم سے اس کے چیلنجز کو قبول کرتی رہی۔
ان دونوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے مختلف تھیں، لیکن ان کا ساتھ ان کے لیے نئی مشکلات اور شاید نئے مواقع لے کر آیا تھا۔ نیرا کی سادگی اور ارہام کی سختی کے درمیان کیا کوئی ایسا لمحہ آئے گا جو ان کی دنیا کو بدل دے؟ یہ ایک دلچسپ موڑ تھا جو ان کی کہانی میں کسی اہم موڑ کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔