ایک دفعہ کا ذکر ہے، ہندوستان کے ایک خوبصورت گاؤں میں عبدالقادر نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔ عبدالقادر نہایت شریف اور محنتی لڑکا تھا، لیکن دل میں ایک عجیب سا خلا محسوس کرتا تھا۔ یہ خلا اس وقت بھرنے لگا جب اُس کی ملاقات سوشل میڈیا کے ذریعے عائشہ نامی ایک لڑکی سے ہوئی۔
عائشہ عراق کے ایک شہر کی رہائشی تھی۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوا، اور جلد ہی یہ بات چیت دوستی میں بدل گئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ، عبدالقادر اور عائشہ کے درمیان محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ عائشہ کی نرم لہجہ اور خوبصورت باتیں عبدال قادر کے دل میں گھر کر گئیں۔
وقت گزرتا گیا، اور عبدالقادر نے دل میں ٹھان لیا کہ وہ عائشہ سے ملنے عراق جائے گا اور اُس سے شادی کے لیے اُس کا ہاتھ مانگے گا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد، اُس نے تمام تیاریاں کیں اور ایک دن عراق کے لیے روانہ ہو گیا۔
عراق پہنچنے کے بعد، عبدالقادر کا دل بہت خوش تھا۔ وہ عائشہ سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔ اُس نے عائشہ کو ملاقات کے لیے بلایا، اور دونوں ایک خوبصورت باغ میں ملنے کا وعدہ کیا۔
جب عبدالقادر باغ پہنچا تو اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ درختوں کے پیچھے سے دیکھ رہا تھا کہ عائشہ آہستہ آہستہ اُس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جب دونوں کی نظریں ملیں، تو وقت جیسے تھم گیا۔ وہ لمحہ عبدالقادر کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھا۔
اچانک، جیسے قسمت نے کوئی بھیانک کھیل کھیلنا تھا، ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ باغ میں بم پھٹ گیا اور عائشہ عبدالقادر کے سامنے زمین پر گر گئی۔ پورا منظر خون سے سرخ ہو گیا۔
عبدالقادر نے بھاگ کر عائشہ کو اپنی بانہوں میں لیا، لیکن اُس کی زندگی کی روشنی بجھ چکی تھی۔ عبدالقادر کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا۔ اُس کا دل پھٹ رہا تھا اور وہ بے بسی سے چیخ رہا تھا۔
عائشہ کے سرد جسم کو اپنی بانہوں میں لیے، عبدالقادر نے اپنی محبت کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔ وہ باغ، جو خوشی کا گواہ بننے والا تھا، اب غم اور ویرانی کا نشان بن گیا تھا۔
خلاصہ: محبت بے پناہ خوشی دے سکتی ہے، لیکن کبھی کبھی یہ غم اور درد کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ عبدالقادر اور عائشہ کی کہانی ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ زندگی کتنی ناپائیدار ہے اور محبت کبھی کبھی بہت بڑی قربانی کا تقاضہ کرتی ہے