پہلے دن نیرا دفتر پہنچنے میں دیر کر گئی تھی۔ جیسے ہی وہ دفتر پہنچی، سیکشن مینیجر نے اسے روک لیا اور سخت لہجے میں پوچھا، "یہ تمہیں پہلے ہی دن اتنی دیر ہو گئی؟ کیا وجہ ہے؟"
نیرا نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا، "سر، مجھے ایک ضروری کام تھا۔ اس لیے دیر ہو گئی۔"
سیکشن مینیجر نے ناپسندیدگی سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا، "یہاں بہانے نہیں چلیں گے۔ ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ آئندہ خیال رکھنا۔"
یہ سن کر نیرا کا دل بیٹھ گیا۔ وہ کافی اداس ہوگئی، لیکن کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
اسی دوران، ارہام خان دفتر میں داخل ہوئے۔ ان کی شخصیت کی وجہ سے دفتر کا ماحول فوراً سنجیدہ ہوگیا۔ جیسے ہی ان کی نظر نیرا پر پڑی، وہ رک گئے۔ نیرا کے چہرے پر افسردگی واضح تھی۔ ارہام نے سیکشن مینیجر کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے کہا، "آج کے دن کی تنخواہ نہ کاٹی جائے۔ انہیں جانے دیں"۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کیبن میں چلے گئے، اور نیرا نے سکون کا سانس لیا۔
لنچ بریک کے دوران نیرا نے سوچا کہ اسے ارہام کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ وہ ہچکچاتے ہوئے ان کے کیبن کے دروازے پر دستک دی۔ ارہام کی آواز آئی، "آئیے۔"
"نیرا اندر گئی اور آہستہ سے بولی، "سر، آج صبح آپ نے میری مدد کی، اس کے لیے شکریہ۔"
ارہام نے سنجیدگی سے جواب دیا، "شکریہ کی ضرورت نہیں۔
پھر وہ تھوڑا نرم لہجے میں بولے، "صبح میں نے تمہیں دیکھا تھا۔ تم ایک زخمی کتے کے ساتھ کھڑی تھیں، جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ تم اسے قریبی ویٹرنری کلینک لے کر جا رہی تھیں"۔
نیرا حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔ وہ بولے، "تم نے جو کیا، وہ اچھا تھا، لیکن یاد رکھو، دفتر کے اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ آئندہ وقت پر پہنچنا"۔
نیرا نے اثبات میں سر ہلایا اور دل ہی دل میں یہ عزم کیا کہ وہ اپنی محنت اور وقت کی پابندی سے ارہام کا اعتماد جیتے گی۔
نیرا ابھی تک وہیں کھڑی تھی، گویا کچھ اور کہنا چاہتی ہو لیکن الفاظ نہ مل رہے ہوں۔ ارہام خان نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور سنجیدگی سے پوچھا، "کیا تمہیں کچھ اور چاہیے؟"
نیرا نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا اور دھیمی آواز میں کہا، "نہیں، سر۔"
ارہام نے اپنی مخصوص سخت لہجے میں کہا، "ٹھیک ہے، پھر جاؤ۔"
نیرا نے فوراً سر جھکایا اور آہستہ سے کیبن سے باہر نکل گئی۔ جیسے ہی وہ باہر نکلی، اُس نے ایک گہرا سانس لیا اور خود کو تسلی دی کہ کم از کم آج کا دن بغیر کسی بڑی پریشانی کے گزر گیا۔ لیکن اس کے دل میں ارہام کے لیے ایک عجیب سی عزت اور خوف کا ملا جلا احساس پیدا ہو چکا تھا-
لنچ بریک کے دوران نیرا کینٹین میں پانی کی بوتل لے کر جا رہی تھی کہ اچانک اس کا توازن بگڑ گیا، اور بوتل کا پانی سیدھا نبیل پر گر گیا۔ نبیل، جو اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا تھا، اچانک چونک گیا اور غصے میں مڑ کر نیرا کی طرف دیکھا۔
نیرا گھبرا گئی اور فوراً معذرت کرنے لگی، "سوری، یہ حادثہ تھا۔"
نبیل نے پہلے تو غصے سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا، لیکن جیسے ہی اس کی نظر نیرا کے چہرے پر پڑی، اس کے تاثرات بدل گئے۔ اس کی سختی غائب ہو گئی، اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ گئی۔
نبیل نے قریب رکھی ایک اور پانی کی بوتل اٹھائی اور مزاحیہ انداز میں کہا، "تو، کیا تم اسے دوبارہ گرانا چاہو گی؟"
نیرا نے حیرت اور الجھن کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا، "نہیں، بالکل نہیں!" اور جلدی سے وہاں سے گزر گئی۔
کینٹین کے دوسرے کونے میں نیرا کی ملاقات شازیہ سے ہوئی، جو ایک مہینہ پہلے ہی دفتر میں تعینات ہوئی تھی۔ شازیہ دوستانہ انداز میں نیرا سے بات کرنے لگی۔
"میں شازیہ ہوں، اور تم شاید نیرا ہو؟" شازیہ نے کہا۔
"ہاں، میں نیرا ہوں۔" نیرا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
دونوں نے خوشگوار گفتگو شروع کر دی۔ اسی دوران شازیہ نے نبیل کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا، "وہ جو نبیل ہے، وہ ذرا الگ قسم کا انسان ہے۔ کبھی کبھار عجیب حرکتیں کرتا ہے، جیسے ابھی اس نے تم سے پانی گرنے پر مزاح کیا۔"
نیرا نے اثبات میں سر ہلایا۔ "ہاں، اس نے واقعی عجیب بات کہی۔"
شازیہ نے قدرے محتاط لہجے میں کہا، "دیکھو، وہ کچھ بھی کرے، لیکن یاد رکھو کہ وہ باس کا قریبی دوست ہے۔ اس لیے احتیاط سے بات کرنا بہتر ہے۔"
نیرا اور شازیہ کی باتوں کا سلسلہ جاری تھا جب شازیہ نے نبیل کے بارے میں بات چھیڑ دی۔
شازیہ نے کہا، "ویسے تمہیں پتا ہے، نبیل ایک بہت ہی کیژول قسم کا بندہ ہے۔ اسے زیادہ پروا نہیں ہوتی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ لیکن وہ ارہام خان کا بچپن کا دوست ہے، اسی لیے اسے دفتر میں ایک اعلیٰ پوسٹ دی گئی ہے۔"
نیرا نے حیرت سے پوچھا، "اچھا؟ تو کیا وہ واقعی اتنا اہم ہے؟"
شازیہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، "ہاں، بالکل۔ وہ ارہام کو کئی مالی اور دفتری معاملات میں مدد دیتا ہے، اسی لیے دفتر میں کوئی اس کے خلاف کچھ نہیں بولتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ باس کے قریب ہے۔ لیکن تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ بہت سے لوگ اس سے جلتے ہیں۔ وہ اسے یہاں سے ہٹانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، لیکن اس کی پوزیشن اتنی مضبوط ہے کہ کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔"
نیرا نے سوچتے ہوئے کہا، "تو اس لیے وہ اتنا بے فکر دکھائی دیتا ہے۔"
شازیہ مسکرائی اور کہا، "بالکل۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا، نبیل سے ہمیشہ محتاط رہنا۔ وہ مزاج میں کیسا بھی ہو، ارہام کی وجہ سے اس کے خلاف جانا مشکل ہو سکتا ہے۔"
نیرا نے شازیہ کی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا، "شکریہ، شازیہ۔ تم نے مجھے بہت اچھی معلومات دی ہیں۔"
شازیہ نے دوستانہ انداز میں کہا، "کوئی بات نہیں، ہم نئی ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔"
یہ گفتگو نیرا کے لیے دفتر کی سیاست کو سمجھنے کا پہلا قدم تھی، اور اسے یہ احساس ہو گیا کہ اس ماحول میں کام کرنے کے لیے نہ صرف محنت بلکہ ذہانت اور سمجھداری بھی ضروری ہوگی-